Sunday, 29 January 2017

062. Tomb of Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed: Nishan-e- Haider

Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed is one of those ten great sons of this country, who in the line of duty and in defence of their country, showed extra ordinary bravery and courage and were awarded with the highest military award of the land, Nishan-e-Haider. 

Lance Naik Muhammad Mahfuz s/o Meherban Khan, was born in 1944 in a small village Pind Malkan now renamed in his honour as Mahufazabad, district Rawalpindi, now in the vicinity of sprawling Islamabad city and actually within the limits of Islamabad Capital Territory. It is situated only 27 kms away from the Zero Point. One can easily reach there while turning towards Kahuta Road from the Islamabad Highway. The tomb is located at  33°35'38.19"N, 73°15'38.91"E




 Tomb of  Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed: Nishan-e-Haider (15.12.2016.)

 Another view of the tomb of Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed: Nishan-e-Haider (15.12.2016.)

View from inside the compound. (15.12.2016.)

Grave of the Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed NH. (15.12.2016.)

Grave of Sarwar Jan, mother of Muhammad Mahfuz. (15.12.2016.)


15 پنجاب رجمنٹ (33 محمدی)
عظمت، جرات، بہادری اور سرفروشی کے 150 سال

15 پنجاب رجمنٹ کی بنیاد23 ستمبر 1850 کو الہ آباد کے مقام پر لیفٹیننٹ ای ایج لانگ مورنے رکھی انہیں اس پلٹن 26 سال تک کمانڈ کرنے کا شرف حاصل ہے۔ اس پلٹن کو 1861 میں 33 بنگال انفنٹری، 1903 میں 33 پنجابی، 1922 میں 3/16 پنجاب کے نام سے موسوم کیا گیا۔ 1947 سے 1956 تک 14 پیرابریگیڈ میں بطور پیرا بٹالین شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔اس عرصہ میں پلٹن کا ہر جوان چھاتہ بردار تھا۔  1903 میں پلٹن کو اکثریت مسلمان سپاہ ہونے کی وجہ سے33 پنجابی ہونے کی وجہ سے33 پنجابی کی بجائے عام طور پر 33 محمدی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ سرکاری دستاویزات میں آج بھی ہم اپنے آپ کو 33 محمدی یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپاہی کہلاتے تھے۔
پلٹن نے آج تک 29 جنگی اعزازات حاصل کیئے ہیں۔ معرکہ حق و باطل میں رن آف کچھ اور چھمب جوڑیاں 1965 اور واہگہ اٹاری پل کنجری 1971 کے محاذ پر پلٹن کے سپوتوں نے کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ 1971 میں پل کنجری کے مقام پرقوم کے نامور سپوت لانس نائک محمد محفوظ شہید نے قربانی دےکرجان فروشی کی عظیم داستان رقم کی جس پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا۔ علاوہ ازیں 33 محمدی کے بہادر سپوتوں نے آج تک 3 ستارہ جرات، 2 تمغہ جرات، 3 تمغہ بسالت اور 17 امتیازی اسناد بھی حاصل کی ہیں۔ 1923 سے 15 پنجاب اور پرنسس آف ویلزرائل رجمنٹ  ایک دوسرے سے اعزازی طور پر منسلک ہیں۔ یہ باہمی تعلق خط و کتابت اور باہمی میل جول کے ذریعے آج تک قائم ہے۔ کھیلوں کے میدان میں 33 محمدی نے آرمی، قومی اور عالمی سطح پر نمائندگی کے علاوہ 1956 کے اولمپکس میں ملک کی نمائندگی کی۔ باکسنگ 33 محمدی کا ہمیشہ سے شاخسانہ رہا ہے۔ اس کھیل کے پچھلے 40 سال سے پلٹن ہمیشہ فاتح رہی ہے۔ آج بھی پلٹن کے کے باکسرز عالمی اور قومی سطح ہر ہمیشہ فتح کے سٹینڈ پر پہنچتے ہیں۔

15 Punjab Regiment (33 Muhammadi)
150 Years of Glory, Valour, Bravery and Fearlessness 

15 Punjab Regiment was raised at Allahabad on 23 December, 1850, by Lieutenant E H Long Moore. He had had the honour of commanding this battalion for 26 years. This battalion was named 33 Bengal Infantry in 1861, 33 Punjabi in 1903 and 3/16 Punjabi in 1922. It has the honour of being part of 14 Para Brigade as a Para Battalion from 1947 to 1956. During this time every soldier of this battalion was a paratrooper. In 1933, due to the majority of soldiers being Muslims this battalion was commonly know as 33 Muhammadi. In official papers it is still called as 33 Muhammadi i.e Soldiers of Muhammad (PBUH). 
So far the battalion has won 29 military awards. In the conflict of right and wrong, at the fronts of Rann of Kucch, Chhamb Jaurian 1965 and battle of Wagah-Attari (Pul Kanjri) 1971, the soldiers gave exemplary performance. In 1971, at Pul Kanjri, nation's great son Lance Naik Muhammad Mahfuz Shahhed by his sacrifice wrote an epic of story of bravery, on which he was awarded Nishan-e-Haider. In addition to that the brave sons of 33 Muhammadi have till date won 3 Sitara-e-Jurrat, 2 Tamgha-e-Jurrat, 3 Tamgha-e-Basalat and 17 Certificates of Distinction. 15th Punjab Regiment and Princess of Wales Royal Regiment and honorarily attached since 1923. This mutual relation is continuous till date through exchange of letters and visits. In the field of sports 33 Muhammadi, besides participating at army, national and international levels, represented the country in 1956 Olympics. Boxing had always been an integral part of 33 Muhammadi, battalion had remained champion for the last 40 years. Today too the boxer of the regiment always reach the victory stand in national and international contests. 

 ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون۔
اور جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں ان کومردہ مت کہوبلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم شعور نہیں رکھتے۔

اے راہ حق کے شہیدو!وفا کی تصویرو!     تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

لانس نائیک محمد محفوظ شہید - جرات، بہادری اور سرفروشی کی داستان

سوانح حیات:- محمد محفوظ گاوں پنڈ ملکاں،ضلع راولپنڈی میں 25 اکتوبر 1944 میں پیدا ہوئے۔ بچپن سے ہی بہت دلیر، باوقار اور خود اعتماد شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوں کےپرائمری سکول سے حاصل کی۔ محمد محفوظ کو بچپن سے ہی تیراکی اور کبڈی کا شوق تھا اور کبڈی کے حوالے سے اردگرد کے علاقے میں پہچانے جاتے تھے۔ اپنے گاوں کی کبڈی ٹیم کے کپتان بھی رہ چکے تھے۔ آرمی میں آنے کا شوق ان کو اپنے دادا جان جناب گلزار خان کی کہانیوں سے ہوا۔ وہ دادا جان سے پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور مسلمان جرنیلوں کی کہانیاں سنا کرتے تھے اور ان ہی کہانیوں سے متاثر ہو کرانہوں نے 25 اکتوبر 1962 کو آرمی میں شمولیت اختیار کر لی اور 8 مئی 1963 کو 15 پنجاب رجمنٹ میں کوئٹہ کے مقام پر تعینات ہوئے۔ 
بہادری اور جانفروشی کی داستان:- نمبر 2222519 لانس نائیک محمد محفوظ الفا کمپنی کی پلاٹون نمبر 3 میں ایل ایم جی کے فائرر تھے۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں 15 پنجاب (33 محمدی) 10 ڈویژن کا حصہ تھی اور لاہور / واہگہ کے محاذ پر تعینات تھی۔ 17 دسمبر کی رات 15 پنجاب کی ایک کمپنی کوپل کنجری گاوں پر حملہ کرنے کا حکم ملا جو دشمن کے علاقے میں تھا اور دشمن کی ایک کمپنی اس پر متعین تھی۔ وہاں پر دشمن نے دفاع کے لیئے نہایت مضبوط مورچہ بندی کر رکھی تھی۔ کچھ وجوہات کی بنا پر حملہ اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر بعد کیا گیا۔ اسی دوران روشنی پھیلنے کی وجہ سے دشمن ہماری کمپنی پر کارگر فائر کر رہا تھا۔ یہ ایسا مرحلہ تھا کہ ذرا برابر حرکت موت کا پیغام سنا رہی تھی۔لانس نائیک محمد محفوظ نے اس موقع پر بھی ہمت نہ ہاری اور دشمن کی جانب فائر جاری رکھا۔ اسی دوران دشمن کا ایک بم لانس نائیک محمد محفوظ کے قریب پھٹا اور بم کے کئی ٹکڑے ان کے جسم پر لگے۔ جس کی وجہ سے لانس نائیک محمد محفوظ کی مشین گن ناکارہ ہوگئی۔ لانس نائیک محمد محفوظ سے 3 گز کے فاصلے پراس کا ایک اور ساتھی جو ایل ایم جی کا فائرر تھا شہید ہوچکا تھا اور اس کی ایل ایم جی قریب ہی پڑی تھی۔ لانس نائیک محمد محفوظ رینگتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس ایل ایم جی سے دشمن پر فائر کرنا شروع کردیا۔ اس دوران اس نے دیکھا کہ دشمن کی ایک مشین گن اپنے مورچے سے ہماری طرف تباہ کن اور موثر فائر کر رہی ہے۔ وہ اس مورچے کی طرف رینگتا ہوا بڑھا، مورچے سے تقریبا دس گز کے فاصلے پر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے اٹھ کر دشمن کے مورچے کی جانب بھاگا اور لانس نائیک محمد محفوظ نے دشمن کے اس فائرر کی جو کہ فائر کر رہا تھا گردن دبوچ لی۔ دشمن کے باقی دو سپاہیوں نے سنگینوں سے محفوظ پر حملہ کردیا۔ لیکن اس شیر دل جوان نے دشمن کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کو موت کی گھاٹ نہ اتار دیا اور لانس نائیک محمد محفوظ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور شہید ہونے کے بعد بھی دشمن ان کے ہاتھ  اپنے ساتھی کی گردن سے بڑی مشکل سے ہٹا سکے۔ اس تمام معرکے میں دشمن کی 3 سکھ لائیٹ انفینٹری کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل پوری جو کہ اگلے مورچے میں تھا اور محفوظ کی تمام بہادری کی کارروائی دیکھ چکا تھا۔ فائر بندی کے بعد جب شہداء کی لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں تو دشمن لانس نائیک کی لاش خود اٹھا کر لائے اور کمانڈنگ آفیسرنےمحفوظ کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا:
میں اپنی تمام سروس کے دوران اتنا بہادر جوان کبھی نہیں دیکھا، اگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اس بہادر جوان کو انڈین آرمی کے سب سے اعلی فوجی اعزاز کے لیئے پیش کرتا.
اور یوں23 مارچ 1972 کو حکومت پاکستان کی جانب سے لانس نائیک محمد محفوظ کو بعد از شہادت سب سے اعلی جنگی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ 15 پنجاب رجمنٹ کے مندرجہ ذیل آفیسرز نے 18 دسمبر 2008 کو یوم محفوظ کے موقع پر یہ خراج عقیدت پیش کیا۔ 
1۔ لیفٹیننٹ کرنل اعجاز قمر کیانی - کمانڈنگ آفیسر
2۔ میجر نعیم اقبال - سیکنڈ ان کمانڈ
3۔ میجر محمد بلال ایوب          4۔ کیپٹن اظفر نذیر سلہری            5۔ کیپٹن ناصر علی
6۔ کیپٹن حافظ اسد ضیاء           7۔ کیپٹن عثمان طاہر                    8۔ کیپٹن عمان شفیع خان
9۔ کیپٹن ڈاکٹر عامر حسن        10۔ کیپٹن جواد علی مظہر            11۔ لیفٹیننٹ علی فیضان خان
12۔ لیفٹیننٹ سفیان شمیم           13۔ لیفٹیننٹ محمد عمر                14۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ زوہیب زاہد
15۔ سیکنڈ لیفٹیننٹ بلال مرزا

And do not say about those who are killed in the way of Allah, "They are dead." Rather, they are alive, but you perceive [it] not. (Quran - 02:154)

 Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed - A Tale of Valour, Bravery & Fearlessness

Biography:- Muhammad Mahfuz was born in Pind Malkan, district Rawalpindi on 25 October, 1944. He had a very brave, dignified and confident personality. He got his early education from the primary school of his village. Muhammad Mahfuz was fond of swimming and kabaddi since his childhood and was known in the surrounding due to Kabaddi. He remained the captain of the Kabaddi team of his village. He became interested in joining army due to the stories of his grand father Gulzar Khan. He listened to stories told by his grandfather about the WWI, WWII and of Muslim generals and being impressed by these stories he joined army on 25 October, 1962 and was appointed in 15 Punjab Regiment on 8 May, 1963 at Quetta. 
A Tale of Bravery & Self Sacrifice:- Lance Naik Muhammad Mahfuz No. 2222519, was LMG operator in the platoon no. 3 of the Alpha Company. During the Indo-Pak war of 1971, 15 Punjab (33 Muhammadi) was part of 10 Division and was deployed at Lahore / Wahgah front. On the night of 17 December, a company of 15 Punjab was ordered to attack the village of Pul Kanjari, which was in the enemy area and a company of enemy was deployed there. The enemy has strongly fortified this place for its defence. Due to some reasons the attack was launched a little later than the decided time. In the meanwhile due to light the enemy was firing effectively at our company. It was such a situation that a little movement meant instant death. Lance Naik Muhammad Mahfuz did not lose courage at this moment and continued his fire against the enemy. In the meanwhile a shell of the enemy exploded near Lance Naik Muhammad Mahfuz, many shrapnels hit his body and his machine gun also was knocked out. At a distance of 3 yards a comrade of Lance Naik Muhammad Mahfuz, who too was a machine gun operator laid martyred and his machine gun was lying nearby. Lance Naik Muhammad Mahfuz crawled towards it and started firing on the enemy with this LMG. During this he saw that from the trenches of the enemy a machine gun is terribly and effectively firing towards us. He crawled towards this pillbox, from a distance of about 10 yards، he rose with a slogan of Allahu Akbar and ran towards the position of the enemy and Lance Naik Muhammad Mahfuz took hold of the machine gun operator from his neck. Two other enemy soldiers attacked Mahfuz with bayonets. But this lion heart soldier did not let the enemy go until he killed him. Due to injuries Lance Naik Muhammad Mahfuz embraced martyrdom and even after his martyrdom the enemy could release the neck of their companion with difficulty. During all this battle the commanding officer of 3 Sikh Light Infantry, colonel Puri who was present in the forward trenches and had seen all the brave action of Mahfuz. After the ceasefire, when the bodies of the martyrs were being retrieved, the enemy himself brought the body of Lance Naik and the commanding officer admitted (praised) the bravery of Mahfuz in the following words:
"During my entire service I have never seen a soldier more brave, had he been a soldier of Indian Army, I would have recommended him for the highest military award."
Hence, on 23 March, 1972, Lance Naik Muhammad Mahfuz was rewarded with the highest military award Nishan-e-Haider by the government of Pakistan, post martyrdom. The following officers of the 15 Punjab regiment paid their respects on Mahfuz Day on 18 December, 2008.
1.   Lieutenant Colonel Ejaz Qamar Kiyani - Commanding Officer
2.   Major Naeem Iqbal - Secon in Command
3.   Major Muhammad Bilal Ayub                  4.  Captain Azfar Nazir Sulehri
5.   Captain Nasir Ali                                      6.  Captain Hafiz Asad Zia
7.   Captain Usman Tahir                                8.  Captain Oman Shafi Khan
9.   Captain Doctor Aamir Hassan                 10. Captain Jawad Ali Mazhar
11. Lieutenant Ali Faizan Khan                     12. Lieutenant Sufian Shamim
13. Lieutenant Muhammad Omar                  14. Second Lieutenant Zoheb Zahid
15. Second Lieutenant Bilal Mirza
   
 My friend and colleague in Al Kass Sports Channel, Sherjeel Masoom straightened the tilted picture of the plaque.

I reached there on one sunny afternoon. The whole areas is very beautiful and even a long drought and dusty atmosphere could not suppress the natural beauty completely. While taking pictures of the tomb a man with pleasant demeanour approached me and introduced himself to be the nephew of Lance Naik Muhammad Mahfuz Shaheed. His friend and neighbour Muhammad Safeer was also with him. 

He informed me that Muhammad Mahfuz was not married. Though he was engaged. He also informed me that Mahfuz had two other brothers and both we re alive. He is son of Sakhawat Hussain, the younger brother of Mahfuz Shaheed. They warmly invited me to have a cup of tea with them, which due to shortage of time I could not accept. Their house is close to the tomb of Mahfuz Shaheed and they also told me that government gave them 75 acres of agricultural land in recognition of his service to the nation. They also invited me to attend a special ceremony to be held after two days on his martyrdom day on 17 December. They were expecting senior military officers to come to lay wreaths on his tomb and offer fateha.  But unfortunately I could not go there again. Mr Faisal can be contacted on the number: +92 342 547 2311.

Mr Sakhawat Hussain younger brother of Muhammad Mahfuz Shaheed NH. (15.12.2016.)

Mr Faisal Mahmood s/o Sakhawat Hussain with his friend Mr Muhammad Safeer. (15.12.2016.)

I with Faisal Mahmood. (15.12.2016.)

House of Sakhwat Hussain sahib. (15.12.2016.)

Son of Faisal Mahmood (Left) (15.12.2016.)

A view of the Margalla Hills from the tomb. (15.12.2016.)

Another view of the surrounding area. (15.12.2016.)

In front of the tomb. (15.12.2016.)

Pakistan Television produced a telefilm on Lance Naik Muhammad Mahfuz, which you can see on the following link:

https://www.youtube.com/watch?v=-jfY0aN_Xt0

In one of her programmes the well known TV host, Farah Hussain, visited this tomb and met the family members of Mahfuz Shaheed. The programme is very informative. The video link is given below:

https://www.youtube.com/watch?v=H7OFzYjUZr0

My friend and school fellow Nabil Shaukat Warraich, of Wasu, Mandi Bahauddin, who is a very good poet, wrote a poem on my special request. 


اے نشانِ  حیدر پانے  والو

اے وطن عزيز كے  جیالو!

تم مُراد  كو اپنى پا گئے  ہو 

قوم کو رستہ دكها  گئے ہو!
وطن کی خاطر جان دی ہے
زندگی  اپنی قربان  کی ہے
بھولے  نہيں احساں  تمہارا
چھوڑا  نہيں  رستہ  تمہارا
مٹی کا قرض چکا دیا  ہے
قوم کو نیا حوصلہ دیا ہے
شہادت ہے اک رسم پرانی
خلوص  وایمان  کی نشانی
جرأت تمہارى بےمثل هے
جزبہ تمہارا كيا  اصل هے
مجاہدو!  سلام   ہو  تم  پر
وفا شعارو انعام  ہو تم  پر
شہید  ہو کر  زندہ  ہو  تم
جنتوں  ميں  تابنده  ہو تم



کلام / نبیل شوکت خادؔم


Muhammad Mahfuz Shaheed is one of those people who love their country and in the time of need does not shirk from their duties towards it. And are always ready to give any sacrifice for its security and well being. This great soldier's tomb is very close to Islamabad. One should take his or her children to inspire them and create feelings of patriotism in the younger generation. Schools can arrange a trip to the tombs and monuments of these heroes. 

You are welcome to provide any additional information about the life, heroism or family of Mahufz Shaheed. 

Tariq Amir

January 28, 2017.
Doha - Qatar.

Wednesday, 18 January 2017

061. Grave of Shahamad Khan: Victoria Cross & Order of St. George

As I mentioned earlier in my post on Captain Raja Sarwar Shaheed, NH, the old Rawalpindi division is home to 5 of ten Nishan-e-Haider recipients. Even before the creation of Pakistan, this region was an important source of recruitment of soldiers for the British Indian Army. Hundreds of thousands of them participated in the two world wars and fought bravely. One of them was Shahamad Khan, of Takhti a small hamlet in tehsil Gujar Khan, district Rawalpindi. 

On 14 December, after visiting the monument of Captain Sarwar Shaheed NH and grave of Sawar Muhammad Hussain Shaheed NH, we reached Takhti in late afternoon. My friend Muhammad Munir was with me during this expedition. He was constantly wondering at me finding this remote place associated with Shahamad Khan, an equally unknown figure in our beloved country. 

It was late in the evening and winter sun was setting fast. We hurriedly took some pictures and offered Fateha. It is a very small village and we could see only a few children playing around this small cemetery and two women could be seen busy in evening chores, in a nearby home. People in small villages still take their dinner at the sunset or soon after. 

We were about to leave when a man came on a motorcycle, sitting behind a young man. He introduced himself to us and I was happily surprised to know that he was a grandson of Shahamad Khan. His name is Raja Muhammad Riaz son of Raja Muhammad Akram son of Shahamad Khan. We had a little chat with him and he told us that this new monument was erected less then a year ago, close to the centennial celebration of Shahamad's Victoria Cross, by the Punjab Regiment. He did not know who currently had the possession of his Victoria Cross. He has a brother living in Rawalpindi, who has some papers related to Shahamad Khan. His medal is now probably a part of Lord Ashcroft's collection. 

The grave of Shahamad Khan is located in Takhti (Takti Rajgan on google earth) at  33°21'32.19"N, 73° 4'12.57"E. About 52 kilometers from the zero point of Islambad, on Rawat - Chakbeli Khan road. A small road leads to Takhti, which is 4 kilometers away from the main  road. But there is a stream near Takhti, with no bridge over it, however it is passable in good weather. The grave of Shahamad Khan is just 500 meters across this stream.  

Naik Shahamad Khan: Victoria Cross
Grave of Shahamad Khan: Victoria Cross (14.12.2016)

Naik (Later Subedar) Shahamad Khan
 (1 July, 1879 - 28 July, 1947)
Naik Shahamad Khan (89 Punjabis - Now the 1st Battlation The Baloch Regiment) was commanding a machine gun section within 150 meters of enemy lines in Mesopotamia on 12 April, 1916 during WWI. While fierce enemy attacks managed to penetrate remaining positions of his platoon, Naik Shahamad Khan held on to his position for three hours, beating back three consecutive enemy attacks. He worked his machine gun single handedly when all his men had become casualties and and continued fighting with personal weapon, once his machine gun was knocked out. His absolute determination and courage provided ample time to his comrades for organizing defence in the rear. 
After receiving orders for withdrawal, he successfully brought back his knocked out gun, ammunition and one severely wounded comrade. For this most conspicuous act of gallantry, Naik Shahamad Khan was awarded Great Britain's highest military award "Victoria Cross" and Russia's highest military award "Order of the St. George."
  
نائک شہامد خان
(یکم جولائی 1879 تا 28 جولائی 1947)

میسوپوٹیمیا کے محاذ پرنائک شہامد خان پہلی جنگ عظیم کے دوران 12 اپریل 1916، کو ایک مشین گن سیکشن کے کمانڈر تھے، جو کہ دشمن سے محض 150 میٹر کے فاصلے پر لگی ہوئی تھی۔ اس پوزیشن کو کلیئر کرنے کے لیئے دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا۔ انہوں نے اپنی مشین گن سے دشمن کے تین جوابی حملوں کو پسپا کیا۔، جبکہ ان کی سیکشن کے تمام افراد زخمی ہو چکے تھے اورلگاتار تین گھنٹوں تک دشمن کے حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے۔ اسی اثناء میں ان کی مشین گن دشمن کے فائر کی وجہ سے ناکارہ ہوگئی ۔ مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری بلکہ اپنے ذاتی ہتھیار سے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور باقی سپاہ کو عقب میں دفاعی لائن کو مضبوط کرنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ 
واپسی کا حکم ملنے پر وہ اپنی مشین گن، ایمونیشن اور اپنے ایک زخمی ساتھی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جرات اور بہادری لے اس عظیم کارنامے پر انہیں برطانیہ کے عظیم ترین فوجی اعزاز"وکٹویہ کراس" اور روس کے سب سے بڑے فوجی اعزاز"آرڈر آف سینٹ جارج" سے نوازا گیا۔ 

As you can read above, Shahamad Khan not only won VC but also the the highest military award of Russia the "Order of St. George". This perhaps makes him  unique in all the Indians who won Victoria Cross. But I could not find any reference of his getting Order of St. George, anywhere else.

Pictures of Victoria Cross and Shahamad Khan. (14.12.2016)

I found a video and some more details about his acts of bravery. I have given the links below:

https://youtu.be/D9ooz5HafVc 
http://www.lordashcroftmedals.com/collection/shahamad-khan-vc/
Place/date of birth: Takhti near Rawalpindi, India (now Pakistan)/July 1, 1879
Rank when awarded VC (and later highest rank): Naik (later Jemadar)
Date of bravery: April 12/13, 1916
London Gazette citation:
No. 1605 Naik Shahamad Khan, Punjabis.

For most conspicuous bravery. He was in charge of a machine gun section in an exposed position, in front of and covering a gap in our new line, within 150 yards of the enemy’s entrenched position. He beat off three counter attacks and worked his gun single-handed after all his men, except two belt-fillers, had become casualties. For three hours he held the gap under very heavy fire while it was being made secure. When his gun was knocked out by hostile fire he and his two belt-fillers held their ground with rifles till ordered to withdraw.
With three men sent to assist him he then brought back his gun, ammunition, and one severely wounded man unable to walk. Finally, he himself returned and removed all remaining arms and equipment except two shovels.
But for his great gallantry and determination our line must have been penetrated by the enemy.
Click here to see full Gazette entry.Other decorations: N/A
Place/date of death: Takhti, near Rawalpindi, Pakistan/July 28, 1947
Grave/memorials: Takhti Cemetery, near Ralwapindi, Pakistan
Origin of VC to the Lord Ashcroft collection: Purchased privately, 1999
Current location of VC: Displayed on rotation at The Lord Ashcroft Gallery: Extraordinary Heroes exhibition, Imperial War Museum

https://books.google.com.qa/books?id=CZJsBQAAQBAJ&pg=PT361&lpg=PT361&dq=shahamad+khan+vc+kut+al+amara&source=bl&ots=79EdUK6jxv&sig=2h-8XcIRmh1qEURbLwYiedmmcWg&hl=en&sa=X&redir_esc=y#v=onepage&q=shahamad%20khan%20vc%20kut%20al%20amara&f=false

http://lib.militaryarchive.co.uk/library/Biographical/library/The-VC-and-DSO-Volume-I/files/assets/basic-html/page231.html

SHAHAMAD KHAN, Naik, served in the European War, in Mesopotamia and was awarded the Victoria Cross [London Gazette, 26 Sept. 1916]: "Shahamad Khan Naik, No. 1605, 89th Punjabis." (See Appendix.) He was born about' 1879, at the village of Takti, near Rawalpindi, son of Fayal Khan. He joined the Army 1 Dec. 1904, serving in the European War at Shaik Sa'id, Arabia, in Nov. 1914; in Egypt, the Dardanelles, France, Mesopotamia, the Mohmand Blockade, Salonika and the Caucasus. Shahamad Khan has now been promoted to Jemadar (Jan. 1920). London Gazette, 26 Oct. 1916.-" The King has been graciously pleased to award the Victoria Cross to the undermentioned Officers, Non-commissioned Officers and Men."

Raja Muhammad Riaz grandson of Shahamad Khan VC (14.12.2016)

Raja Muhammad Riaz grandson of Shahamad Khan VC (14.12.2016)

A view of the cemetery, where Shahamad Khan VC is buried(14.12.2016)

Muhammad Munir - (14.12.2016)

Me, relaxing and waiting for dinner, at Dhok Budhal - (14.12.2016)

While writing this post, I felt the name of Shahamad Khan curious. I have never heard such a name before and linguistically also it makes no sense. I know from my own experience that village people still pronounce Ahmad as Aamad. And we are talking about an era almost a century and half old. So in my opinion it is quite possible that his name was Shah Ahmad Khan (شاہ احمد خان) and not Shahamad Khan. So somebody at some stage wrote his name as he heard and understood and those spellings stuck on. But, my friend Munir contacted Raja Riaz his grandson and he said that the name was indeed Shahamad Khan (شہامد خان). 

I shall wait for your comments and will welcome any contribution on this topic. I still cannot find the battle and its location, where this incident happened on 12 April, 1916. At that time a division of British Indian army was under siege at Kut Al Amara, Iraq, which surrendered on 29 April, 1916 and all the persons were taken prisoners. But Raja Riaz told my friend Munir that his grandfather was not taken prisoner. So may be, he along with his unit was deployed somewhere else. My friend Munir not only accompanied me on my visit to Takhti, but also contacted Raja Riaz to make some enquiries on my behalf. Similarly my friend Omar Haroon, living in San Francisco, helped me in correcting a grammatical mistake (just one little mistake).  

The second question is more intriguing. What he is today for us? A hero or just a mercenary? After all on 12 April, 1916, when he was manning his machine gun, Muslim soldiers of Ottoman Empire were on the receiving end. What was he thinking while fighting his own fellow Muslims? It is well known that Muslims soldiers were having a very uneasy conscience due to this fact. A man is product of his time, and so they were too. We cannot judge them a century later, living an altogether different circumstances. They made their choices and fulfilled their commitments. Shahamad Khan too was such a person, who enlisted in the army due to his own reasons and when the time came he did not wavered. That is the most important thing. Now that generation has passed away. May their souls rest in eternal peace.


Tariq Amir
January 18, 2017.
Doha - Qatar.

Monday, 16 January 2017

060. Tomb of Sawar Muhammad Hussain Janjua Shaheed: Nishan-e-Haider

December 14, 2016, was a lucky day for me, because on this day I visited two of the ten recipients  of Nishan e Haider, the highest military award of Pakistan. After visiting the monument of Raja Muhammad Sarwar Shaheed, a couple of hours earlier, I reached Dhok Nishan e Haider, the village of Sowar Muhammad Hussain Shaheed, Nishan e Haider, just 71 kilometers away from the zero point of Islamabad. The tomb is located at  33°11'40.35"N; 73° 3'46.46"E


Sawar Muhammad Hussain Janjua Shaheed, Nishan e Haider (Photo by Twitter Account of Pakistan Army)

Tomb of Sowar Muahmmad Hussain Shaheed NH - (14.12.2016.)


Road to Dhok Nishan Haider(14.12.2016.)


A view of the tomb of Sowar Muhammad Hussain Shaheed, Nisha e Haider. (14.12.2016.)


Sowar Muahmmad Hussain (Shaheed), Nishan e Haider
Son of
Roz Ali
Date of Birth ___________________18 January, 1949.
Date of Martyrdom_____________10 December, 1971.
Place of Martyrdom___________Gajgal, (Shakargarh)



سوار محمد حسین شہید نشان حیدر
20 لانسرز حیدری

سوار محمد حسین 18 جنوری 1949 کو ڈھوک پیربخش راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہ 3 ستمبر 1966 کو فوج میں بھرتی ہوئے اور آرمڈ کور میں بحیثیت ڈرائیور تربیت حاصل کی۔ تربیت کی تکمیل کے بعد انہیں 20 لانسرز میں تعینات کیا گیا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہوں نے اپنی یونٹ کے ہر معرکے میں غیر معمولی گرمجوشی سے حصہ لیا۔ کتنا ہی سنگین مرحلہ کیوں نہ ہو کسی خطرے کی پرواہ کیئے بغیر وہ کوئی نہ کوئی مشین گن سنبھال لیتے اور دشمن پر آگ برسانے لگتے۔ 5 دسمبر 1971 کو ظفروال، شکرگڑھ کے محاذ پردشمن کے ٹینکوں اور پیادہ فوج کی طرف سے شدید اور براہ راست گولہ باری کی پرواہ کیئے بغیر وہ ایک ایک خندق میں جاکر اپنے جوانوں کو گولہ بارود پہنچاتے رہے۔ 8 اور 9 دسمبر 1971 کو وہ چار لڑاکا دستوں کی کٹھن اور پرخطر مہمات میں انکے ہمراہ گئے۔ 10 دسمبر کو انہوں نے جب دشمن کو "ہرر خورد" گاوں میں ہماری بارودی سرنگوں کے قریب مورچے کھودتے دیکھا تو فورا یونٹ کے نائب کمانڈر کو اطلاع دی اور پھر خود اپنے طور پریکے بعد دیگرے اپنی ایک ایک ٹینک شکن گن کے پاس گئے اورگنوں کا رخ درست کرواتے رہےاور دشمن کے ٹینکوں پر صحیح فائر کرواتے رہے جس کے نتیجے میں دشمن کے 16 ٹینک تباہ ہوگئے۔ 10 دسمبر1971 کی سہہ پہر کے چار بجے جب سوا محمد حسین اپنی  ایک "ری کائل لیس رائفل"  بردار جیپ کو دشمن کے ٹھکانے دکھا رہے تھے، تو دشمن کے ایک ٹینک سے سے مشین گن کی گولیوں کی ایک بوچھاڑ نے ان کی چھاتی چھلنی کردی۔ اور وہ میدان جنگ میں واصل بحق ہوگئے۔ سوار محمد حسین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ نشان حیدر پانے والے پہلے "جوان" تھے۔ سوا محمد حسین شہید 20 لانسرز رجمنٹ سے تعلق رکھتے تھے جو 20 جون 1956 کو لیفٹیننٹ کرنل نصراللہ خان کے زیر کمان راولپنڈی از سر نو تشکیل دی گئی۔ اس یونٹ نے 1965 کی پاک بھارت جنگ کے دوران سیالکوٹ کے دفاع میں کامیابی سے حصہ لیا۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں یہ یونٹ شکر گڑھ سیکٹر میں تعینات تھی۔ جہاں اس نے مثالی پس قدمی کی لڑائی لڑی اور جنگ کے تمام عرصے میں دشمن کو روڈ شکرگڑھ ظفروال پر پہنچنے اور اسے کاٹنے سے باز رکھا۔ اس یونٹ کو 24 اگست 1976 کو 20لانسرز حیدری کا نام دیا گیا۔ 

 Sowar Muahmmad Hussain (Shaheed), Nishan e Haider
20 Lancers, Haideri

Sowar Muhammad Hussain was born on 18 January, 1949, in Dhok Pir Bakhsh, Rawalpindi. On 3 September, 1966, he got enlisted in army and got his training as a driver in Armoured Corp. After the completion of his training he was appointed in 20 Lancers.
During the Indo-Pak war of 1971, he participated in every battle of his unit with extraordinary zeal. No matter how dangerous the situations were, he always got hold of a machine gun and started firing on enemy, without a fear of any danger. On 5 December, 1971, at Zafarwal, Shakargar front he kept on supplying ammunition to soldiers in each and every trench, without considering intense and direct fire from the tanks and infantry of enemy. On 8 and 9 December, he accompanied four fighting units in their difficult and dangerous tasks. 
On 10 December, when he saw digging trenches in "Harar Khurd" village near our minefield, he immediately informed the deputy commander of the unit and then on his own initiative he went to each and every gun one after the other and corrected their directions and made them fire upon the positions of enemy, resulting in the destruction of 16 of the enemy's tanks. Afternoon at 4 o' clock on 10 December, 1971 when Sowar Muhammad Hussain was showing the positions of the enemy to one of his Recoiless Rifle mounted Jeep, a hail of fire from a machine gun of an enemy's tank, riddled his chest with bullets and he met his True Lord on the battlefield. Sowar Muhammad Hussain has the distinction of being the first soldier to receive Nishan e Haider. 
Sowar Muahammad Hussain was associated with 20 Lancers Regiment, which was recorganized under the command of Lietenant Colonel Nasrullah Khan on 20 June, 1956 in Rawalpindi. This unite participated successfully in the defense of Sialkot in the Indo-Pak war of 1965. During the Indo-Pak war of 1971 this unit was deployed in Shakargarh sector. Where this unit fought an exempalry rearguard action and during all the duration of the war, did not let enemy to reach and cut the Shakargarh - Zafarwal road. This unit was named as 20 Lancers Haideri on 24 August, 1976.

Wreaths on the grave of Sowar Muhammad Hussain Shaheed - NH: (14.12.2016.)


More information about the life of Sowar Muahammad Hussain is given on the following website in Roman Urdu (Urdu written in Roman alphabets):

http://www.urdubiography.com/national-heroes/sawar-muhammad-hussain-shaheed.html

سوار محمد حسین شہید 18 جون 1949 کو ڈھوک پیر بخش کے مقام پر پیدا ہوئے۔ 3 ستمبر 1966 کو فوج میں بھرتی ہوئے۔ فوج میں بھرتی ہونے کے بعد آپ نے ڈرائیونگ میں مہارت حاصل کی۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں سوار محمد شہید 20 لانسرز کے ساتھ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 5 دسمبر 1971 کو سوار محمد حسین شہید ظفروال-شکارگڑھ کے محاذ پر جاکر نوجوانوں کو اسلحہ اور بارود پہنچاتے رہے۔ 6 دسمبر 1971 کو وہ ایک لڑاکا گشتی دستوں کی پرخطر مہمات میں ان کے ساتھ جاتے رہے۔ 10 دسمبر 1971 کو سوار محمد حسین شہید نے دشمن کو ہرر خورد گاوں میں مورچے کھودتے دیکھ کر یونٹ کمانڈر کو اطلاع دی۔ سوار محمد حسین شہید کی ذاتی کوششوں سے دشمن کے 16 ٹینک تباہ ہوئے۔ 10 دسمبر کو ہی چار بجے سوار محمد حسین اپنی ایک ریکائل لیس رائفل سے دشمن کو ٹھکانے لگاتے ہوئے گولیوں کی بوچھاڑ سے شہید ہوئے۔ میجرامان اللہ کی سفارش پر محمد حسین کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔  
سوار محمد حسین کے والد کا نام روز علی تھا اور وہ ایک کاشت کار تھے۔ 1967 میں آپ کی شاید ارزان بی بی سے ہوئی تھی۔ جن کے بطن سے آپ کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں سوار محمد حسین ابھی دیوی ہائی سکول میں زیر تعلیم تھے، لیکن ان کے دل میں وطن سے بھرپور محبت کا جذب موجود تھا۔ آپ نے پرائمری تک تعلیم موضع جھنگ پھیرو میں پائی۔ آپ کے گھر میں شلوار قمیض اور تہہ بند پہنتے تھے۔ کھانے میں سرسوں کا ساگ، مکھن اور لسی بہت پسند کرتے تھے۔ کھیلوں میں کبڈی اور والی بال آپ کے پسندیدہ کھیل تھے۔    

محمد حسین کی شہادت
روایت کے مطابق جنگ پر جانے سے پہلے آپ کے والد نے آپ کو سفید کپڑوں کا ایک جوڑا دیا۔ سوار محمد حسین اکثر واقعہ کربلا دہرایا کرتے تھے اور حضرت امام حسین کی جرات و شجاعت مندی پر جھوم جھوم جایا کرتے تھے۔ آپ شہید ہوئے تو آپ کی جیب سے 100 روپے ایک منی آرڈر اور دو خون آلود خطوط برآمد ہوئے۔ سوار محمد حسین کے والد نے جب ان کی شہادت کی خبر سنی تو پہلا سوال یہی کیا کہ "میرے بیٹے نے میدان جنگ میں بزدلی تو نہیں دکھائی؟"
سوار محمد حسین شہید کا واقعہ "امانت میں خیانت"
سوار محمد حسین شہید کا ایک ایمانداری کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک دفعہ   ایک دوست نے سوار محمد حسین شہید کے والد کے پاس 200 روپے بطور امانت رکھوائے. اسی دوران آپ کے والد کو روپوں کی اشد ضرورت پڑ گئ۔ انہوں نے سوار محمد حسین سے ذکر کیا تو آپ نے کہا، " وہ کسی کی امانت ہیں۔ البتہ میرے پاس ذاتی طور پر اپنے 50 روپے موجود ہیں، آپ ان سے کام چلا لیں۔ میں ان 200 روپوں میں سے ایک روپیہ بھی نہیں دوں گا، کیونکہ اس طرح امانت میں خیانت ہوگی اور جب خدا کے حضور مجھے جواب دہ ہونا پڑے گا تو میں وہاں کیا جواب دوں گا؟"
Sawar Muhammad Hussain Shaheed was born on 18 June, 1949 at Dhok Pir Bakhsh. He got enlisted in army on 3 September, 1966. After joining the army he gained his driving skills. During the Indo-Pak war of 1971 he served in 20 Lancers. On 5 December, 1971 Sawar Muhammad Hussain Shaheed kept on supplying ammunition to soldiers. On 6 December, 1971 he participated in dangerous tasks of fighting formations. On 10 December, 1971 he saw the enemy digging trenches at the village or Harar Khurd and informed the unit commander. Due to personal efforts of Sawar Muhammad Hussain Shaheed 16 tanks of the enemy were destroyed. On same 10 December while attacking the enemy with his recoil less rifle he got martyred in a hail of enemy's fire. On the recommendations of Major Amanullah he was awarded Nishan e Haider. 
The name of Sawar Muhammad Hussain's father was Roz Ali and he was a farmer. He got married with Arzan bibi in 1967. Who gave birth to a son and a daughter. It is worth mentioning that during the Indo-Pak war of 1965, was though getting education in Devi High School, but he has great passion in his heart for the love of his country. He got his primary education in the village of Jhang Pheru. He wore Shalwar Qameez and tehband at home. In food he liked mustard spinach, butter and Lassi (yogurt mixed with water),very much. 
Martyrdom Of Muhammad Hussain
As per tradition, before leaving for war his father gave him a suit of white clothes. Sawar Muhammad Hussain often mentioned the incident of Karbala and was deeply moved by the courage and bravey of Hazrat Imam Hussain. After his martyrdom a money order of Rs 100 and two blood stained letters were found in his pocket. When his father heard the news of his martyrdom, his first question was" Whether my son had shown any cowardice in the battlefield."
 An Incident of Sawar Muhammad Hussain's Honesty
 An incident of Sawar Muhammad Hussain's honesty is quite well known. Once a friend of Sawar Muhammad Hussain Shaheed gave Rs 200 to his father to keep in trust. In the meanwhile his father got in desperate need of some money. When he mentioned it to Sawar Muhammad Hussain, he said, "That is a trust of someone. However, I have a personal amount of Rs 50, try to manage with that. I shall not give a single rupee out of those 200, because it will be a breach of trust and when I shall be answerable to God, what reply shall I give? 

Note: My friend Waseem Ahmad Qureshi, currently residing in Riyadh, helped me a little in translating the above passage (just one sentence to be precise). But as per my commitment, I am bound to write his name in bold letters. 

Muhmmad Munir: (14.12.2016.)

Tariq Amir: (14.12.2016.)

Mr Sohail Warraich of Geo News presenter of famous programme "Aik din Geo ke saath", visited the village of Sawar Muhammad Hussain Shaheed and met his father and son. He produced this programme probably in 2008 and gives a moving account of Sawar Muhmmad and his martyrdom by his father. The video can be seen on the following link:

https://www.youtube.com/watch?v=YVwydwRnucQ&t=1023s


While travelling in the rural areas of northern Punjab I have often seen boards, indicating towards the graves of martyrs, who have laid down their lives in the ongoing war against terrorism. One such grave I saw at Faraash. It is the grave of a soldier, who got martyred in Kurram Agency. I saw the following board on the road with some details. May the souls of our martyrs rest in eternal peace. 

پاک فوج کی عظمت کو سلام

جنرل راحیل شریف نشان امتیاز ملٹری
چیف آف آرمی سٹاف جنرل ہیڈکوارٹرز، راولپنڈی
 نمبر 2014/03/0333 ایم سی ون-سی 23 مارچ، 2014
والد محترم پہلوان خان
السلام علیکم
 حکومت پاکستان نے آپ کے بیٹے کی ذاتی شجاعت، بہادری اور فرض شناسی کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از شہادت ستارہ بسالت کا عطا کیا ہے۔ شہادت کا بلند مقام حاصل کرکے، آپ کے بیٹے نے مسلمانوں کی شجاعت اور قربانی کی عظیم روایات کی آبیاری کی ہے۔ ان کی قربانی اور شہادت ہمیشہ دوسروں کے لیئے مشعل راہ ہوگی۔ اللہ عزو جل آپ کے شہید بیٹے کی عظیم قربانی کو قبول فرمائے۔ آمین
میں آپ کے شہید بیٹے کی کارکردگی پر فخر محسوس کرتا ہوں اور اس بات سے مطمئن ہوں کہ حکومت پاکستان نے شہید کے درخشاں کارنامے کا اعتراف کیا ہے۔ 

والد پہلوان خان
سپاہی محمد آصف شہید
گاوں حفیظ اللہ، ڈاکخانہ رنجالی، تحصیل گوجر خان، ضلع راولپنڈی 
Salute to the greatness of Pak Army
General Raheel Sharif, Nishan e Imtiaz, military
Chief of Army Staff, General Headquarters, Rawalpindi
No. 0333/03/2014, MC1-C, 23 March, 2014.
 Respected father Pehalwan Khan
Assalam o Alaikum.
Government of Pakistan in recognition of hour son's personal courage, bravery and dutifulness, has awarded him Sitara e Basalat, post martyrdom. By achieving the high status of  martyrdom your son has continued the great legacies of courage and sacrifice of Muslims. His sacrifice and martyrdom will always serve as a beacon of light to others. May Allah accept the great sacrifice of your son. Ameen.
I feel proud at the performance of your son and feel satisfied that the Government of Pakistan has recognized the glorious achievement of your son.


Father Pehelwan Khan
Sipahi Muhammad Asif Shaheed
Village Hafizullah, P.O. Ranjali, tehsil Gujar Khan, district Rawalpindi. 


 Grave of Raja Muahmmad Asif Shaheed, Sitara e Basalat

I suggest my readers to visit this place and pay their respect to a person who laid down his life in defence of our country. It is an easy day long trip from Islamabad / Rawalpindi. The countryside is very beautiful and in a good weather, it will be a nice picnic for your family or friends. 

Tariq Amir

January 16, 2017.
Doha - Qatar.


Thursday, 12 January 2017

059. Monument of Captain Raja Muhammad Sarwar Shaheed: Nishan e Haider

Nishan-e-Haider is the highest military award of Pakistan, granted to honour those who show great courage and give supreme sacrifice of giving their life in defense of their country. So far 10 Pakistanis have received this great honour. It is interesting to note that at least seven out of these ten Nishan-e-Haider recipients belonged to an area of erstwhile Rawalpindi Division. Rashid Minhas though was born in Karachi but the homeland of Minhas clan is the same region. So probably 8 had roots in this region. Similarly 3 out of 5 Victoria Cross recipients of the British Army, from future Pakistan region, also belonged to this area.

The first of them, who received this highest award for bravery was Captain Raja Muhammad Sarwar Shaheed, Nishan-e-Haider. It was a coincidence that when I started visiting the tombs of our heroes, who received NH, his monument was the first that I visited. Before writing his biography and details of his achievements, I would like to inform my readers that Captain Sarwar is on of those two Nishan e Haiders, who are not buried in Pakistan. Captain Sarwar is buried in occupied Kashmir, on Tilpatra hill, west of Uri, very close to Line of Control. I could not find the exact location. So instead of a tomb, army built a beautiful monument to honour him, which is located at  33°24'7.59"N;  73°14'50.35"E. 

The other NH who is not buried inside Pakistan is Major Muhammad Akram Shaheed, who is buried near Hili in Bangladesh.


Picture By: http://dailythepatriot.com/captain-sarwar-shaheed-nh-remembered/

A sign post near the monument of Captain Raja Muhammad Sarwar Shaheed NH. (14.12.2016.)

Above are a few couplets from the famous poem of Allama Iqbal, Tariq ki dua, i.e prayer of Tariq (Tariq Bin Ziyad) most appropriate homage to shaheeds like Captain Sarwar. For a moment I thought to translate it, but then dared not. Luckily my school buddy Waseem Ahmed, currently residing in Riyadh, (I promised him to write his name in bold letters for his contribution) came to my help and provided this excellent translation, which is given on the following blog:

https://urdushairii.blogspot.qa/2012/07/ye-ghazi-ye-tere-purisrar-banday-with.html?showComment=1483889109390#c4226823918211336442


یہ  غازی  یہ تیرے  پر اسرار  بندے
جنہیں  تو نے  بخشا  ہے ذوق  خدائی
These   warriors,    victorious,   These  worshipers  of    Yours,
Whom You have granted the will to win power in Your name;

دونیم ان کی ٹھوکرسے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی  ہیبت  سے رائی
Who  cleave  rivers  and woods  in twain,
Whose terror turns mountains into dust;

شہادت  ہے مطلوب  و مقصود  مومن
نہ  مال   غنیمت   نہ  کشو ر  کشائی
They  care  not  for  the  world;
They care not for its pleasures;  

دو عالم سے  کرتی ہے بیگانہ  دل کو
عجب    چیز    ہے    لذت     آشنائی
In their passion, in their zeal, In their love for Thee, O Lord,
They   aim   at   martyrdom,   Not   the   rule   of   the    earth. 

Unfortunately I could not find the name of the translator. 
First Plaque:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
In the name of Allah, the Most Gracious and Most Merciful
یادگار کیپٹن محمد سرور شہید نشان حیدر
Monument of Captain Muhammad Sarwar Shaheed Nishan-e-Haider
رسم افتتاح
Inauguration ceremony
بدست 
By the hand of
 عزت مآب لیفٹیننٹ جنرل محمد عارف بنگش ہلال امتیاز ملٹری ستارہ بسالت
Honourable Lieutenant General Muhammad Arif Bangash, Hilal-e-Intiaz Military, Sitara-e-Basalat
کوارٹر ماسٹر جنرل پاکستان آرمی
Quarter Master General Pakistan Army
6 ستمبر 1993
6 September, 1993.

Second Plaque:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
In the name of Allah, the Most Gracious and Most Merciful 
کیپٹن راجہ محمد سرور بھٹی شہید اول نشان حیدرکے مقبرے کا سنگ بنیاد
Captain Raja Muhammad Sarwar Bhatti Shaheed's tomb's (a mistake) foundation was laid by 
عزت مآب کرنل کمانڈنٹ پنجاب رجنٹ لیفٹیننٹ جنرل امتیاز وڑائچ
Honourable Colonel Commandant of Punjab Regiment, Lieutenant General Imiriaz Warraich
ہلال امتیازملٹری ستارہ جرات، ستارہ بسالت، تمغہ بسالت 
Hilal-e-Imtiaz Military, Sitara-e-Jurrat, Sitara-e-Basalat, Tamgha-e-Basalat
نے آج مورخہ 3 اکتوبر 1990 بمطابق 12 ربیع الاول 1411ھ کو اپنے دست مبارک سے رکھا۔ 
today on date 3 October, 1990, according to 12 Rabi ul Awwal 1411 AH, with his own blessed hands. 


Monument of Captain Raja Muhammad Sarwar Shaheed, Nishan-e-Haider. (14.12.2016.)

Munir Sahib standing proudly in from of the monument: (14.12.2016.)


A brief biography of Captain Sarwar is written in Urdu, at the monument: (14.12.2016.)

کیپٹن راجہ محمد سرور بھٹی شہید  (اول نشان حیدر)
آپ 10 نومبر 1910 کو موضع سنگھوڑی تحصیل گوجر خان، ضلع راولپنڈی میں حوالدار راجہ محمد حیات خان بھٹی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ راجپوت بھٹی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول کلیام اعوان ضلع راوالپنڈی سے حاصل کی۔ میٹرک اسلامیہ  سکول لائلپور سے 1928 میں پاس کیا۔ 1929 میں 2/10 بلوچ رجمنٹ میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوئے۔ 1939 میں آرمی سپلائی کور میں نائب صوبیدار کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1943 میں ڈیرہ دون اکیڈمی سے کمیشن حاصل کیا اور پنجاب رجمنٹ میں تعینات کیئے گئے۔ 
آپ کے اردلی جہانداد خان کا بیان ہے کہ آپ پانچ وقت باقاعدگی سے نماز پڑھتے، قرآن کی تلاوت کرتے اور نماز تہجد ان کا معمول تھا۔ اپنی دولت زیادہ تر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ کوئی سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جاتا۔ میجر محمد افضل صاحب اورکیپٹن محمد سرور صاحب 1946 کے آخر میں اکٹھے جہلم سینٹر میں تھے۔ آتما سنگھ کرنل کمانڈنٹ تھا، کیپٹن صاحب سے کہنے لگا تم ہر وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہو۔ کیپٹن محمد سروربہت غصے میں ہوگئے اور آتما سنگھ کو کہنے لگے میرے مذہب کے متعلق تمہیں بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ہر وقت اللہ کو یاد کروں گا۔ ہاں میری ڈیوٹی میں کوئی فرق آئے تو تم مجھ سے کہہ سکتے ہو۔ لہذا آئندہ ایسے کہنے کی جرات نہ کرنا۔ 
جنرل راجہ محمد جمشید صاحب کا بیان ہے کہ میں اور کیپٹن راجہ محمد سرور صاحب 1948 میں جہاد کشمیر میں دونوں کیپٹن تھے۔ ایک رات میں نے دیکھا کہ نماز تہجد کے (وقتوہ زاروقطار رو رہےہیں۔  ناشتہ کے وقت میں نے ان سے پوچھا کہ وہ رات کو اللہ تعالی سےرورو کر کیا دعا مانگ رہےتھے؟ پہلے وہ بتانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ آخر ہم ساتھیوں کے اصرار پر بتایا کہ میں نے اللہ سے دعا مانگی کہ مجھے شہادت کا رتبہ مل جائے یا حج کی سعادت نصیب ہو۔ ٹھیک سات دن بعد اللہ تعالی نے آپ کی شہادت کی دعا قبول کر لی۔ 
معرکہ تل پترا، اوڑی محاذ: 1947کو پاکستان معرف وجود میں آیا، لیکن ہندوستان کے حکمران اس اسلامی مملکت کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ہندوستان نے کشمیر کے راستے پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش 1948 میں شروع کردی۔ چنانچہ قائداعظم محمد علی جناح نےجہاد کشمیر کا اعلان کیا اورپاک فوج کو پاک فوج کو شریک جہاد کا حکم دیا۔ کیپٹن محمد سرور اس وقت جی ایچ کیو کے سکول آف سگنلز میں کورس کررہے تھے۔ آپ کی یونٹ 2 پنجاب رجمنٹ کشمیرمیں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیئے شامل ہوئی۔ جونہی آپ کا کورس ختم ہوا آپ نے بھی اپنی یونٹ کے ساتھ جہاد کشمیر میں اصرار کے ساتھ شامل ہونے کی اجازت لی۔ واہ فیکٹری کے سابق چیئرمین میجر جنرل (ر) فضل مقیم نے اپنی کتاب تگ وتاز جاودانہ (تب و تب جاودانہ) میں کیپٹن سرور شہید کی اپنی یونٹ کے ہمراہ جہاد کشمیر میں شرکت کے لیئے ان کے شوق شہادت کے جذبے اور تڑپ کی روداد قلم بند کی ہے۔ آپ کر پرعزم دیکھ کر کمانڈنٹ آفیسر نے آپ کو اجازت دے دی۔ آپ کو سگنل افسر مقرر کیا گیا۔ آپ نے تل پترہ پہاڑی پر دشمن کا مقابلہ کرنےکے لیئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ 
27 جولائی 1948 بمطابق 20 رمضان المبارک 1367ھ صبح تین بجےاپنے جوانوں کو ساتھ لیا اور دشمن کو للکارادشمن نے مشین گنوں، توپوں اور مارٹر گنوں کے فائر کھول دیئے۔ آپ نے شجاعت کے ساتھ پیش قدمی جاری رکھی، آپ کا مشین گنر شہید ہوگیا۔ آپ نے اس کی مشین گن لے کر دشمن کے 40 سپای جہنم واصل کیئے۔ جب دوسرا مشین گنر آگیا تو آپ نے مشین گن اس کو دے دی اور دوسری طرف چند جوانوں کے ہمراہ آگے بڑھے اور دشمن کی مشین گن کوتباہ کردیا۔ اس دوران آپ زخمی ہوگئے لیکن پھر بھی پیش قدمی جاری رکھی۔ خاردار تار لگی ہوئی تھی، اس کو خود کاٹا اور جوانوں کو گزارا اور دشمن پر آخری ہلا بول دیا۔ اس دوران دشمن کی آٹومیٹک مشین گن کر برسٹ آپ کے سینہ مبارک کو چھلنی کرگیا۔ آپ گر پڑے اپنے جوانوں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے۔ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ فتح کی خوش خبری سن کر 27 جولائی 1948بمطابق 20 رمضان المبارک 1367ھ کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ آپ کو تل پترہ کی پہاڑی پر ہی دفن کیا گیا۔ اللہ ان کی لحد پر ہمیشہ شبنم افشانی کرے۔ آمین
 Translation:

 Captain Raja Muhammad Sarwar Bhatti Shaheed 
(First Recipient of Nishan-e-Haider)
He was born on 10 November, 1910, in the village Singhori, tehsil Gujar Khan, district Rawalpindi, in the house of Havildar Raja Muhammad Hayat Khan Bhatti. He was a scion of Rajput Bhatti family. He got his primary education from Government Primary School, Kaliam Awan, district Rawalpindi. He passed his examination of Matriculation from Islamia High School Lyallpur (Faisalabad) in 1928. He enlisted in 2/10 Baloch Regiment as a soldier. Was appointed as Naib Subedar in the Army Supply Corps in 1939. He got his commission in Dehra Dun Academy and was appointed in the Punjab Regiment.
His orderly Jahandad Khan stated that he offered his prayers five times regularly, recited Holy Quran and offering pre dawn prayers was his routine. He spent most of his money in the causes of Allah. No needy person was turned away from his home empty handed. Major Muhammad Afzal and Captain Muhammad Sarwar were serving together in Jhelum Centre at the end of 1946. Aatma Singh was Colonel Commandant, he said to Captain Sarwar that he was he always busy in prayers. Captain Sarwar became angry and said to the colonel "you have no right to speak about my religion and I shall keep on remembering, yes you can tell me if you see any deficiency in performing my duties, so dare not say anything about it."
General Raja Muhammad Jamshed stated: I and Raja Sarwar were captains during the jihad of Kashmir in 1948.One night I saw that he was weeping profusely, after the pre dawn prayers. At the breakfast I ask him what he was praying to Allah about? Initially he was not willing to tell, but on insistence of we companions he informed "I prayed to Allah that I get the  of martyrdom or blessing of performing Haj". Right after seven days Allah granted his prayer for martyrdom. 
Battle of Tilpatra, Uri Front: Pakistan came into existence in 1947. But the rulers of India wanted to destroy this Islamic State. So India started its attempt to destroy Pakistan through Kashmir in 1948. Therefore Quaid-e-Azam Muahammad Ali Jinnah declared Jihad in Kashmir and ordered Pak Army to participate in it. Captain Sarwar were participating in a course in GHQ's School of Signals. His unit 2 Punjab Regiment entered Kashmir to face the enemy. As soon as the course ended he persisted to take permission to participate in Jihad of Kashmir, with his unit. In his book Tab o Taab e Jawidana, the ex chairman of Wah Factory, Major General (R), Fazal Muqeem, has described the his passion for participating in Jihad of Kashmir with his unit and his longing for martyrdom. Seeing his determination the commanding officer gave him permission. He was appointed as signals officer. He offered himself to fight the enemy at Tilpatra hill. 
On 27 July, 1948, i.e 20 Ramadan, 1337 AH, took his men with him and challenged the enemy. The enemy opened fire with machine guns, artillery and mortars. He kept on advancing bravely. His machine gunner got martyred. He took hold of his gun and sent 40 of enemy's soldiers to hell. When a second gunner arrived he handed over the machine gun to him. He, along with some soldiers, advanced from another side and destroyed a machine gun of the enemy. He got injured during it, but kept on advancing. There was barbed wire, which he cut himself and let the soldiers pass through it and led a final assault on the enemy. During this time, a burst from the automatic machine gun of the enemy pierced his noble chest. He fell down but encouraged his soldiers to fell upon the enemy while reciting the Kalima Tayyiba. After hearing the good tiding of victory, he embraced martyrdom on 27 July, 1948, i.e. 20 Ramadan, 1337 AH. He was buried on Tilpatra hill. May Allah always shower his blessings on his grave. Amen.

Another beautiful view of the Monument: (14.12.2016.)

Yes that's me. (Looking awkward?). (14.12.2016.)

View of the monument from outside: (14.12.2016.)

View from across the road. (14.12.2016.)

In search of some more material, I found some additional information about the life of Captain Sarwar on this website: http://www.urdubiography.com/national-heroes/captain-sarwar-shaheed.html. It is in Roman Urdu (Urdu written in Roman Alphabets), here I have given its transliteration and translation also. 

 کیپٹن راجہ محمد سرور 10 نومبر 1910 کو موضع سنگھوڑی، تحصیل گوجرخان، راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام راجہ محمد حیات خان تھا، جو فوج میں حوالدار تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران سرور شہید کے والد راجہ محمد حیات کو شاندار خدمات کے صلے میں حکومت برطانیہ نے تحصیل سمندری، چک 229 (غالبا چک نمبر 229 جی بی فضل پورہ) میں تین مربع (75 ایکڑ) زمین دی تھی جو ان کا کل سرمایہ تھی۔ راجہ محمد خان اپنے دور میں گاوں کے نمبردار کہلاتے تھے۔ ان کا انتقال 23 فروری 1932 کو ہوا۔ 
کیپٹن سرور شہید کے تین بھائی اور ایک بہن تھیں۔ آپ ان میں چوتھے نمبر پر تھے۔ آپ کے باقی بھائیوں کے نام راجہ محمد مرزا خان، راجہ محمد سردار خان اور راجہ محمد افسر خان ہیں۔ ان میں سے راجہ مرزا کا انتقال 25 فروری 1967 کو فیصل آباد میں ہوا۔ 6 سال کی عمر میں سرور شہید کے والد انہیں گاوں لے گئے۔  آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول فیصل آباد سے حاصل کی اور مڈل کا امتحان تاندلیانوالہ سے 1925 میں پاس کرنے کے بعد 1927 میں صرف 17 سال کی عمر میں میٹرک کر لیا۔ اتوار 15 مارچ 1936 میں ان کی شادی موضع سنگھوڑی میں محترمہ کرم جان سے قرار پائی۔ اللہ پاک نے انہیں ایک بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا، جن کے نام انہوں نے بالترتیب راجہ محمد صفدراور گلزار بیگم رکھا۔ یہ بات خالی از دلچسپی نہیں کہ سرور شہید اپنی سخاوت کی بنا پرگاوں میں "سخی سرور" کے نام سے بھی مشہور تھے۔ 
زمانہ طالب علمی میں سرور شہید کو فٹبال اور کبڈی سے بہت رغبت تھی۔ اور وہ اکثر پڑھائی سے فراغت کے بعد یہ کھیل بہت شوق سے کھیلا کرتے تھے۔ آپ 15 اپریل 1929 کو فوج میں بطور سپاہی شامل ہوئے۔ اور انہیں بطور سپاہی 11681 نمبر دیا گیا۔ آپ نے اپنی ابتدائی فوجی تعلیم اولڈ بلوچ سینٹر کراچی میں حاصل کی اور 30 اپریل 1941 تک بلوچ رجمنٹ میں خدمات سرانجام دیں۔ 15اگست 1940 کو آپ نے  احمد نگر سے ڈرائیونگ اورنظم و نسق کا کورس مکمل کیا۔ آپ نے 15 اکتوبر 1933 کو رومن اردو کا امتحان درجہ اول میں جھانسی سے پاس کیا۔ جبکہ انگریزی کا امتحان 15 نومبر 1935 کوشاندار نمبرز سے پاس کیا۔ 15 ستمبر 1945 کو المورا سے آپ نے کمیشنڈ آفیسر کا کورس پاس کیا اور پھر 1 مئی 1941 سے 20 ستمبر 1943 تک بریلی سکول میں انسٹرکٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے۔ انہیں بنگالی کمیشن کے لیئے منتخب کیا گیا۔ جبکہ بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ انہوں نے اپنا عہدہ 1944 میں سنبھالا۔ 27 اپریل 1944 کو انہیں انڈین ملٹری اکیڈیمی دہرادون سے کمیشن ملا اور 30 جون 1944 کو انہیں عارضی کیپٹن بنا دیا گیا۔ 1945 کے نصف اول میں انہیں I-مرز بٹالین کے محاذ پر بھیجا گیا۔ 15 مارچ 1945 کو آپ 3 پنجاب رجمنٹ میں منتقل ہوگئے اور اگست 1946 تک اسی رجمنٹ میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1 اپریل 1947 کو انہیں فل کیپٹن بنا دیا گیا۔ 
دوسری جنگ عظیم میں آپ نےبرما کے محاذ پرشاندار خدمات سر انجام دیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت برطانیہ نے انہیں "محاذ برما" کا تمغہ عنایت کیا۔ 1948 میں پاکستان بننے کے بعد سرور شہید کو تمغہ خدمت پاکستان کے اعزاز سے نوازا گا اورمحاذ کشمیر پر خدمت ادا کرنے پر انہیں کشمیر آپریشن تمغہ دیا گیا۔ جنوری 1948 میں سگنل کورس کرنے کے لیئے آپ راولپنڈی چلے گئے اور27 جولائی 1948کو اڑی کے محاذ پرجام شہادت نوش کیا۔ پاکستان کا پہلا نشان حیدر آپ کو ملا۔ آپ کا مدفن تل پترہ پہاڑی پر اڑی کشمیر میں ہے۔ 
 Translation:
Captain Raja Muhammad Sarwar was born on 10 November, 1910, in village Singhori, tehsil Gujar Khan, Rawalpindi. His father's name was Raja Muhammad Hayat Khan, who was a Havildar in army. During the WWI, the British government granted three murabba (75 acre) land to Sarwar Shaheed's father Raja Muhammad Hayat, in tehsil Samundri, Chak 229 (probably Chak 229 GB, Fazalpura), which was his all of his assets. Raja Muahammad Khan was Numberdar (a land revenue official) of his village. He died on 23 February, 1932. 
Captain Sarwar Shaheed had three brothers and one sister. He was on number four among them. His brothers names are Raja Muhammad Mirza Khan, Raja Muhammad Sardar Khan and Raja Muhammad Afsar Khan. Raja Mirza Khan died on 12 February, 1967, in Faisalabad. At the age of 6, Raja Sarwar's father took him to their village. He got his education from Islamia High School, Faisalabad and after passing his exam of Middle School from  Tandlianwala in 1925, he did his matric in 1927 at the age of only 17 years. His marriage was performed on Sunday 15 March, 1936 in Sanghori, with Ms. Karam Jan. Allah blessed him with a son and a daughter, whom he named Raja Muhammad Safdar and Gulzar Begum, respectively. It is not without interest that due to his generosity he was also well known with the name of Sakhi Sarwar (Generous Sarwar).
He was very fond of football and kabaddi in his school time and often played these games with great interest after getting free of his studies. He enlisted in army on 15 April, 1929 as a sipahi (soldier) and he was allotted the number of 11681. He got his basic military training in Old Baloch Centre in Karachi and served in the Baloch Regiment till 30 April, 1941. He completed his driving and administrative course on 15 August, 1940, from Ahmadnagar. He passed his exam of Roman Urdu in First Class on 15 October, 1933, from Jhansi. While passed his exam of English with excellent marks on 15 November, 1935. He passed the course of Commissioned Officer on 15 September, 1945, from Almora. He served as an instructor in Bareilly school from 1 May. 1941 till 20 September 1943. He was selected for Bengali Commission. He got the designation of Second Lieutenant in 1944. He got his commission on 27 April, 1944 from the Military Academy Dehra Dun and he was promoted to temporary Captain on 30 June, 1944. In the first half of 1945 he was sent to the front of "Marz I Battalion" (?). He was transferred to 3 Punjab Regiment on 15 March, 1945 and kept on serving in the same battalion till August, 1946. He was made full captain on 1 April, 1947.
In WWII he rendered great services on Burna Front. Consequently the British Government granted him the medal of Burma Front. After the creation of Pakistan, Srwar Shaheed was honoured with Tamgha e Khidmat and for serving on Kashmir front, he was given the medal of Kashmir Operation. In January, 1945, he went to Rawalpindi to attend a signal course. And embraced martyrdom on 27 July, 1948 on the Uri Front. His burial place is on Tilpatra Hill, Uri, Kashmir.
The above passage gives a lot of information about Captain Muhammad Sarwar Shaheed, though some events are not in order and some others are not clear.

While visiting the monument, I felt proud and also realized the value of Nishan-e-Haider and the sacrifice of his recipient Captain Muhammad Sarwar Shaheed. The monument itself is very beautiful and set in a very beautiful area. Though due to winter and drought the atmosphere was mostly dry and dusty. I wish more people visit this place, which is just 40 kms away from the zero point of Islamabad i.e. only 17 kilometers from the eastern edges of Rawalpindi city. I watched a documentary programme of ATV, presented by Farah: The youtube link is given below:

https://www.youtube.com/watch?v=FgXdv5EBUfI


At the end I wish somebody could inform the location of his grave and if possible provide pictures. May be somebody could contact his family and take some information from them. I shall be thankful if someone could provide some additional information, especially the location of his grave or suggest some correction.

Tariq Amir

January 12, 2017.Doha - Qatar.